اپنے موقف پرپہلے بھی قائم تھے آج بھی قائم ہیں امارت اسلامیہ کے نائب اور سیاسی دفتر کے سربراہ محترم ملاعبدالغنی برادر اخوند

اپنے موقف پر پہلے بھی قائم تھے اور اب بھی قائم ہیں ان خیالات کا اظہار امارت اسلامیہ کے نائب اور سیاسی دفتر کے سربراہ محترم ملا عبدالغنی برادراخوند نے امارت اسلامیہسٹوڈیو کو ایک انٹرویو دیتے ہوکیا انہوں نے کہا کہ مذاکرات امن اور اسلامی نظام کے لئے ایک پیش رفت ہے ہمارا موقف پہلے بھی اسلامی نظام شریعت تھا اور اب بھی ہے ۔مذاکرات کے حوالے سے انہوںنے کہا کہ مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہےاور مستقبل قریب میں بھی ہمیں امید کی کرن نظر آرہی ہے اللہ تعالی افغانستان میں امن اور اسلامی نظام لارہا ہے الحمدللہ اب تک ہمارا ہی پڑا بھاری رہا ہے اور ہم اپنے شریعت کے اصولوں پر اب تک کاربند ہیں ۔ انہوں نے مذاکرات سے کیا امید وابستہ کے جواب میں کہا کہ اس سے ہم بہت زیادہ امید رکھتے ہیں کہ آنے والے وقت میں افغانستان کے مسلئہ حل ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور انشا اللہ بہت جلد دینا اسلامی نظام دوبارہ مستحکم ہو گا خارجی افواج کا انخلا ہو گا اور ہم اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ پر امن طریقے سے رہیں گے انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہا جو لوگ اب امارت اسلامیہ میں نہیں ہے انہیں کیا کہیں ؟یا ان کے ساتھ آپ کا کیا رویہ ہو گا تو انہوں نے کہا کہ اگر انہوں نےمذاحمت نہیں کی اور پر امن رہیں تو ہم ان کے ساتھ ویسے ہی پیش آئیں گے جیسے لوگ اپنے بھائیوں سے پیش آتے ہیں اگر یہ لوگ بھی ہمیں بھائی سمجھیں تو میں امید کرتا ہوں کہ تمام مشکلات حل ہو جائیں گی ہم تمام ملک کے لوگوں کو کہتے ہیں کہ مطمین رہیں پریشان نہ ہوں امن سے رہیں امارت اسلامیہ کہ جتنے بھی بڑے ہیں وہ ان سے رحم دلی کا مظاہرہ کریں گےکسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی سب کو انصاف ملے گا۔ سب افغان آپس میں بھائی ہیں ایک وطن ہے سب مل بیٹھ کر اپنے مسلئے حل کریں گے ۔ ایک دوسرے پر رحم کریں گے ۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ اپنے مذاکراتی ٹیم سے کتنے مطمین ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں سب سے پہلے امیر المومینین شیخ ہیبت اللہ اخند سے بہت خوش اور شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اس ٹیم کا حصہ بنایا ہے مجھ سے رہنمائی حاصل کی اور میں نے ان سے حاصل کی ہے ٹیم سے بہت مطمین ہوں کہ اس میں علما کرام شامل ہیں سمجھ و تجربے والے لوگ موجود ہیں ایسے لوگ جن کی استعداد بہت ہے کئ امتحانوں سے گزرے ہیںاس وقت کے قابل لوگ ہیں اور افغان ملت بھی ان پر اعتماد رکھتے ہیں اور ہمارے بڑے بھی ان پر پورا بھروسہ رکھتے ہیں ماشااللہ بہت ہی اچھی ٹیم ہے انشااللہ ان کے تواسط سے ملک بہت جلد ہی امن اللہ رب العزت لے آئے گا اور ہم امید کرتے ہیں کہ ان سے وہ کام ہو گا جس میں اسلام اور امت مسلمہ کی خیر ہو گی ۔ ایک اور سوال جب ان سے پوچھا گیا کہ افغانستان میں سیاسی جماعتوں کو یہ تشویش لاحق ہے کہ اگر اسلامی نظام قائم ہو جائے تو وہ لوگ مجبورا ملک چھوڑ کر چلیں جائیں گے تو اس کے حوالے سے آپ کی کیارائے ہے اس پر انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہوگا کیوں کہ ہم ان لوگوں کی خدمات کو اچھی طرح جانتے ہیں ہم ان کی قدر کرتے ہیں ان کے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ان کے ساتھ ہم بھائیوں والا رویہ رکھیں گے ان کو ملک سے جانے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک اور قوم کے لئے استعمال کریں ہمارے قائدین بھی ان کو قدر کی نگا ہ سے دیکھتےہیں ۔ ان کے ساتھ بھی ہمارا سلوک اسی طرح ہو گا جس طرح ہمارا آپس میں ہے کسی کو یہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ امارت صرف اپنے لوگوں تک محدود ہو گی بلکہ ان کو بھی حصہ دیا جائے گا۔ پڑوسی ممالک سے تعلقات کے بارے میں انہو ں نے کہا ہمارا آنے والا نظام کسی کے خلاف نہیں ہو گا سب کہ ساتھ برابری کے سطح پر تعلقات قائم رکھیں جائیں گے نہ ہم اپنی زمین کسی کے خلاف استعمال کریں گے اور نہ کسی اور اپنی زمین کو استعمال ہونے دیں گے اور ایک بات کی وضاحت ہم کر دینا جاہتے ہیں ہم کسی کہ زیر اثر نہیں ہیں نہ ہم کسی کو نقصان دیں گے اور نہ کوئی ہمیں نقصان پہنچائے بلکہ اچھے روابط کے خواہشمند ہیں اگر ہمارے ساتھ کسی نے دوستی کا ہاتھ بڑایا تو ہم ان سے پہلے ہاتھ بڑائیں گے ان کے قریب ہوںگے اور امید ہے کہ پڑوسی بھی ہمارے ساتھ اچھے روابط رکھیں گے اور جو دوملکوں کے درمیان تعلق ہوتے ہیں اسی کو قائم و دائم رکھیں گے اگر انہوں نے ایسا کیا تو یہ ہمارے لئے کافی خوش آئند ہو گا اور اگر دیکھا جائے تو ابھی تک ہم نے کسی پڑوسی ملک کو نقصان نہیں پہنچایا اور نہ پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ ایک اور سوال جو ان سے کیا گیا کہ اب تک ہونے والے مذاکرات میں کیا آپ نے یہ محسوس کیا کہ آپ لو گ اپنے موقف سے پیچھے ہٹے ہو ںیا کوئی ایسی بات ہوئی ہو جو شریعت کے موقف نہ ہو تو انہوں نےکہا کہ الحمدللہ اب تک جتنی بھی بات جیت ہوئی ہے میری نظر سے ایسی کوئی بات نہیں گزری جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ ہمارے موقف میں کوئی کمی بیشی آئی ہو یا کوئی شریعت سے مخالف بات ہوئی ہو ۔ابھی تک کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جو اصول کے خلاف ہو یا اسلامی قانون کے خلاف ہو ان مذاکرات میں ہم نے یہ بات دہرائی ہے کہ ہم اپنی ذمین کو کسے کے خلاف استعمال نہیں کی اور نہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کسی کو اختیار نہیں ہے کہ ہماری زمین کو استعمال کرے پہلے بھی ہماری یہی بات تھی اور اب بھی ہے اور آئند ہ بھی رہے گی آخر میں انہوں نے اپنے مجاہدین کرام کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اللہ رب العزت نے سیاسی اور محاذ پر کامیابی عطا کی ہے تو ہمیں تکبر اور فخر نہیں کرنا چاہے بلکہ اللہ سبحان و تعالی کا شکر ادا کرنا چاہے اور عاجزی اختیار کرنا چاہے امت مسلمہ ، ملت افغان اور اسلام کی خدمت کی فکر کریں اپنے قوم کے بڑوں کو بڑوں جسے عزت دیں چھوٹوں کو اپنے بھائیوں جیسی شفقت دیں میری یہ نصیحت ہے کہ عوام کے ساتھ ایسا رویہ رکھے جس طرح باپ بیٹے کا ہوتا ہے اور اپنے آپ کو قوم کا خادم سمجھے نہ کہ حاکم ایک بار پر کہتا ہوں کہ تکبر، فخر اور بڑائی سے اپنے آپ کو بچا کر رکھیں ۔ سب سے رحم والا معاملہ کرے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے