وزیراعظم عمران خان نے سیکیورٹی فورسز کو بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کا اختیار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نیا پاکستان ہےاور ہم اپنی عوام کو بتانا چاہتے ہیں کہ ریاست ان کے تحفظ کے قابل ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں پلوامہ حملے کے بعد پاکستان کو اس میں ملوث کرنے کی بھرپور مذمت کی گئی۔ اجلاس میں کہا گیا کہ اگر بھارت کے پاس اپنے الزامات کے ثبوت ہیں تو پیش کرے۔

اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کے زیرِ صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس تین گھنٹے سے زائد جاری رہا۔ اجلاس میں ملک کی داخلی اور خارجی سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔

قومی سلامتی کمیٹی نے بھارتی فوج کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی بھی مذمت کی۔ کمیٹی نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر یورپی پارلیمنٹ کی رپورٹ کا بھی خیر مقدم کیا۔ اجلاس میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، پاک فضائیہ، پاک بحریہ اور حساس اداروں کے سربراہان شریک تھے۔

اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے سیکیورٹی فورسز کو بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کا اختیار دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ بھارت کسی قسم کا بھی حملہ کرے تو اسے انتہائی موثر جواب دیا جائے۔ یہ نیا پاکستان ہےاور ہم اپنی عوام کو بتانا چاہتے ہیں کہ ریاست ان کے تحفظ کے قابل ہے۔

اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا کہ دنیا کشمیر کے تنازع کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تشدد کا منفی اثر نکل رہا ہے۔ بھارت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کیوں مقبوضہ کشمیر کے عوام میں موت کا خوف ختم ہو گیا ہے۔

اجلاس میں ایک بار پھر بھارت پیشکش کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی گئی کہ پلوامہ حملے کے ٹھوس شواہد فراہم کیے گئے تو پاکستان ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے گا۔ توقع کرتے ہیں کہ بھارت مذاکرات کے حوالے سے پیش کش کا مثبت جواب دے گا۔

پاکستان نے دہشت گردی اور دیگر متنازع امور پر بھی مذاکرات کی پیشکش کی لیکن واضح کیا کہ ہمارا ملک پلوامہ حملہ میں کسی طرح بھی ملوث نہیں، اس کی منصوبہ بندی بھارت میں کی گئی اور عملدرآمد بھی خود کرایا گیا۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان یقین رکھتا ہے کہ طاقت کے استعمال کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے۔ ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی کو علاقہ کے اہم مسئلے تسلیم کرتے ہیں۔ پاکستان سمیت سارے خطہ کو ان مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے ہاتھوں 70 ہزار جانوں کی قربانی دی اور بھاری مالی نقصان اٹھایا۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ 2014ء میں نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا اور اس پر عمل کیا گیا۔ اس پلان میں تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے موثر اقدامات تجویز کیے گئے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ملک کو براہ راست خطرات سے نکالنے کے لیے ہمیں عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔

انہوں نے اس عزم کا دوبارہ اعادہ کیا کہ ریاست کبھی بھی انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنے گی۔ وزارت داخلہ اور سیکیورٹی ادارے موثر عملی اقدامات کو یقینی بنائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے