تحریر: حافظ عبدالقدر قریشی

ماسکو میں 5 اور 6 فروری کو منعقدہ کانفرنس میں افغان سیاست دانوں نے مطالبہ کیا تھا کہ دوسرا اجلاس ‏ازبکستان میں منعقد کیا جائے، ازبکستان بظاہر روس کے زیر اثر ہے لیکن اس ملک کا امریکہ کے ساتھ بہت ‏قریبی تعلقات ہیں اور امریکہ کا وسطی ایشیا میں یہ قریبی ملک تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم طالبان کے نمائندوں ‏نے کہا کہ ان کے سیاسی دفتر اور مذاکراتی ٹیم کے کچھ ارکان سفری پابندیوں کی وجہ سے قطر سے باہر ‏نہیں جا سکتے ہیں، اس لئے پھر فیصلہ کیا گیا کہ بین الافغانی مذاکرات کا اگلا دور قطر میں ہوگا۔ایسا بھی نہیں ہے کہ بلیک لسٹ میں شامل طالبان کے تمام ارکان سفری پابندیوں کی وجہ سے کسی ملک بھی ‏نہیں جا سکتے ہیں، بلکہ امریکا اور اقوام متحدہ کے نام نہاد بلیک لسٹ میں شامل طالبان رہنماوں نے ماسکو ‏کانفرنس میں شرکت کی ۔

گوانتاناموبے سے رہا کئے گئے طالبان رہنماوں ملا محمد فاضل اخوند، ملا خیر اللہ خیرخوا، ملا نور اللہ ‏نوری، ملا عبدالحق وثیق اور مولوی محمد نبی عمری کا مسئلہ کوئی اور ہے، امریکی دباؤ کی وجہ سے انہیں ‏قطر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ ان پانچ رہنماوں کو رہائی کے کئی سال بعد اکتوبر 2017 میں ‏افغانی پاسپورٹ جاری کر دیئے گئے تاہم سفری پابندیوں کی وجہ سے وہ قطر سے باہر نہیں جا سکتے ہیں ‏جن میں پاکستان بھی شامل ہے ۔

باوثوق ذرائع کے مطابق 17 اور 18 دسمبر 2018 کو ملا محمد فاضل اخوند اور ملا خیر اللہ خیرخواہ کو دوحہ ‏کے ایئر پورٹ پر تین گھنٹے تک روکے رکھا گیا کیوں کہ انہیں قطر سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی، ‏پھر امریکہ کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ زلمی خلیل زاد مجبور ہوا کہ یہ مسئلہ حل کریں جن کی مداخلت پر ‏اعلی امریکی حکام کو مذکورہ طالبان رہنماؤں کی دستاویزات پر دستخط کرنے کے لئے قطر جانا پڑا جس ‏کے بعد انہیں ابوظہبی مذاکرات میں شرکت کرنے کے لئے جانے کی اجازت دی گئی ۔

اسلام آباد میں پاکستانی حکام کے ساتھ طالبان کے سیاسی دفتر کے رہنماوں نے ملاقات کی تیاریاں مکمل کی ‏تھیں لیکن اس دوران ملا فاضل اخوند اور ملا خیر اللہ خیرخواہ پر امریکہ کی جانب سے عائد سفری پابندیوں ‏کی وجہ سے طالبان کو یہ ملاقات ملتوی کرنی پڑی، مذاکرات سے دو دن پہلے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ ‏مجاہد نے ایک مختصر اعلامیہ جاری کیا جس کے مطابق سفری پابندیوں کی وجہ سے طالبان نے پاکستان ‏کا دورہ ملتوی کر دیا، قطر میں مقیم پانچ رہنما حج اور عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لئے مکہ مکرمہ ‏اور مدینہ منورہ بھی نہیں جا سکتے ہیں ۔

امریکہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے گوانتانامو کے سابق پانچ قیدیوں پر سفری پابندی، کچھ رہنماوں کے ‏پاسپورٹ کے اجراء اور بعض رہنماوں کے نام بلیک لسٹ میں شامل ہونے کی وجہ سے طالبان رہنماوں کو ‏مشکلات کا سامنا ہے، ملا برادر اخوند کے پاسپورٹ کا مسئلہ بھی ابھی تک برقرار ہے ۔

زلمی خلیل اور ان کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ امن مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے بلیک لسٹ سے ‏طالبان رہنماوں کے نام ہٹانے، سیاسی دفتر کو تسلیم کرنے اور غیر ملکی افواج کے انخلا جیسے اہم مسائل ‏اپنی اولین ترجیحات میں شامل کریں ۔

امریکہ نے طالبان سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ جنگ بندی افغان عوام کا ‏اندرونی معاملہ ہے، جس میں امریکہ کو مداخلت کا حق نہیں ہے، اگر طالبان اور امریکہ کے درمیان فوجی ‏انخلا پر اتفاق ہوا اور ان کے درمیان معاہدہ ہو گیا تو طالبان فوری طور افغانوں کے ساتھ جنگ بندی اور ‏مستقبل کے نظام پر بات چیت کریں گے ۔

کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی ان دنوں شدید دباو کا شکار ہیں، انہیں خدشہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ ‏انہوں نے جو معاہدہ کیا تھا اس کی پاسداری کرنے کے بجائے امریکہ اب طالبان کے ساتھ فوجی انخلا کے ‏حوالے سے نیا معاہدہ کر رہا ہے، جو انہیں متوازی حکومت تسلیم کرنے کے مترادف ہے جبکہ ہمسایہ ‏ممالک کی جانب سے بھی طالبان کو سرکاری سطح پر مدعو کیا جاتا ہے جو کابل انتظامیہ کی حیثیت کو ‏چیلنج کرنے کے مترادف ہے، ان خدشات کی بنیاد پر اشرف غنی نے اقوام متحدہ سے اپیل کی کہ وہ بلیک ‏لسٹ میں شامل طالبان رہنماوں کے دوروں پر پابندی عائد کرے تاہم اس اقدام سے طالبان کو زیادہ نقصان ‏ہونے سے کابل انتظامیہ زیادہ بدنام ہوئی اور ایسے ہتھکنڈوں سے اس نے خود کو بے نقاب کر دیا اور ‏سیاست دانوں نے بھی اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ کابل انتظامیہ امن عمل کی راہ میں کیوں رخنہ ڈالنے ‏کی کوشش کر رہی ہے اگر طالبان نے مایوس ہو کر امن مذاکرات سے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو اس کی تمام تر ‏ذمہ داری کابل انتظامیہ پر عائد ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے