صلح، خودمختاری اور مطمئن  زندگی افغان عوام کی چالیس سالہ آرزو ہے۔ افغان عوام نے چار دہائیوں میں امارت اسلامیہ کے دور کے علاوہ کبھی پرامن زندگی کی نعمت کا مزہ  نہیں چکھا۔ پہلے روسی جارحیت، پھر جنگجو دھڑوں کی خانہ جنگیاں اور امریکی جارحیت وہ عوامل ہیں،جنہوں نے افغان عوام سے امن کی عظیم نعمت چھین رکھی ہے۔ حالیہ اٹھارہ برسوں میں افغانستان میں جنگ کا سبب بیرونی امریکا ہے۔ امارت اسلامیہ کے منظم جہاد اور مؤثر ڈپلوسی کے ذریعے استعماری فوج افغانستان سے نکلنے پر آمادہ ہوئی ہے۔ یہ جنگ زدہ عوام کے لیے ایک عظیم خوش خبری ہے۔اسی وجہ سے افغان عوام کی پرامن زندگی کی امیدیں بڑھ رہی ہیں۔

ایسے نازک حالات میں کابل کٹھ پتلی انتظامیہ، خاص طور پر اشرف غنی نے جنگ کے نعرے لگانا شروع کیے ہیں۔ انہوں نے اپنے مدعا اور دلیل کو جوڑنے کے بجائے نعرے بازی، پروپیگنڈا اور بدگوئی اختیار کر رکھی ہے۔ فروری کی 5 اور 6 تاریخ کو روسی کے دارالحکومت ماسکو میں امارت اسلامیہ کے نمائندوں اور متعدد افغان سیاست دانوں، تنظیمی رہنماؤں کے نمائندوں اور بااثراشخاص کے درمیان افہام و تفہیم کی کانفرنس منعقد ہوئی۔ عوام نے اس کا وسیع پیمانے پر استقبال کیا۔ مزید یہ کہ اسی نوعیت کی ملاقاتوں کے تسلسل کی امیدیں بھی ظاہر کیں۔ البتہ اشرف غنی نے افغان مصبیت زدہ عوام کی صلح کی آرزو کی توہین کی ہے۔ انہوں نے صلح کی فضا میں جنگ کی دھمکیاں دے کر اپنی کم ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے چالیس سالہ جنگ کے مصیبت زدہ عوام کی امیدوں اور آرزؤں کا احترام کرنے کے بجائے  صلح کے تمام عمل کی مذمت کی  اور صرف اپنے اقتدار کے لیے اصرار کیا۔

ہم نہیں سمجھتے موصوف اپنے کس کارنامے کی بنیاد پر اپنی حکمرانی پر اتنا اصرار کر رہے ہیں؟ حالانکہ افغان حکومت تو بنیادی طور پر ایک غیرملکی وزیر کے دستخطوں کی نتیجہ ہے۔اس حکومت سے عوام کو ظلم، قتلِ عام اور دیگر برائیوں کے علاوہ کسی اچھے کام کی کوئی توقع نہیں ہے۔ افغان حکومت کے سربراہ کی حیثیت اتنی سی ہے کہ وہ اپنے ایک فرمان تک پر عمل کروانے کے لیے بے اختیار ہیں۔ وہ تو ایک گورنر تک کو اُن کے عہدے سے برخاست کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

امارت اسلامیہ کو یقین ہے کہ جس طرح افغان عوام کے ارادے کے خلاف جنگ کے بیرونی عوامل ختم ہونےوالے ہیں، اسی طرح ملکی سطح پر بھی ‘اسلامی افغانستان’ کا داعیہ جنگ اور کرپشن کو رائج کرنے والوں پر غالب ہو جائے گا۔ مؤمن عوام کے روشن مستقبل کے خلاف تمام رکاوٹیں ختم ہوجائیں گی۔  لہذا اشرف غنی جیسے جنگ پرور افراد کے شورشرابے کو اہمیت نہ دی جائے۔ ان کے اقدامات صلح کے خلاف ان کے بغض اور دشمنی کو ظاہر کرتے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ مذکورہ امن عمل بارے مذاکرات کا حقیقی دشمن کون ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے