روس اور امریکا کی جوہری معاہدے سے دستبرداری کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا جارہا ہے جبکہ کئی ”ماہرین“تو اسے رواں سال میں جوہری جنگ کی جانب قدم سے تعبیر کررہے ہیں. سوشل میڈیا پر دنیا بھر کے مختلف رنگ ونسل اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار‘ماہرین 2019کو ایٹمی جنگوں کے آغازکا سال قرار دے رہے ہیں.

ڈونلڈ ٹر مپ نے امریکا کا صدر منتخب ہونے کے بعد روس کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاﺅ کو ختم کرنے کا عندیہ دیا تھا گزشتہ روزامریکی وزیرخارجہ نے باضابط طور پر اس کا اعلان کیا تھا جس کے جواب میںروسکے صدر ولادیمیرپیوٹننے بھی امریکا کے فیصلے کے فوری بعد ردعمل دیتے ہوئے دہائیوں پہلے سرد جنگ کے دوران کیے گئے میزائل معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کر دیاہے.ولادیمیر پیوٹن نے امریکا کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن کے حوالے سے کہا کہ ہمارے امریکی شراکت داروں نے اعلان کیا ہے کہ وہ معاہدے کو معطل کررہے ہیں اور ہم بھی اپنی طرف سے معطل کرنے کا اعلان کرتے ہیں. پیوٹننے وزیرخارجہ سرگئی لاروف اور سرگئی شوئیگو سے ملاقات کے دوران کہا کہروسبھی امریکا کے ساتھاسلحےکی تخفیف کے لیے مزید مذاکراتکی کوشش نہیں کرے گا.انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک انتظار کریں گے جب تک ہمارے حصہ دار کے رویے میں اہم موضوع پر ہمارے ساتھ مساوی اور معنی خیزمذاکراتکے لیے پختگی نہیں آتی. وزیرخارجہ سرگئی لاروف نے کہا کہ امریکا خود کئی برسوں سے معاہدے کی خلاف کررہا ہے‘انہوں نے کہا کہ روسنے سفارتیمذاکراتکے کئی مواقع پر معاہدے کو بچانے کے لیے تمام تر کوششیں کی. امریکی صدر رونالڈ ریگن کی مداخلت پر سوویت یونین کے آخری صدر میخائیل گوباچوف نے1987 میں روسی میزائل کے مسائل پر انٹرمیڈیٹ رینجنیوکلیئرفورس کا معاہدہ کیا تھا لیکن دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے پر طویل عرصے سے معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں.معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ 500 سے 5500 کے ہدف کے میزائل پر پابندی ہوگی جس میں واضح کیا گیا تھا کہ روسی میزائل مغربی ممالک کے دارالحکومتوں کو ہدف بنا رہے ہیں لیکنچیناور دیگر اہم طاقتوں کے حوالے سے کوئی حد مقرر نہیں کی گئی تھی. ڈونلڈ ٹرمپنے امریکا کا صدر منتخب ہونے کے بعد اعلان کیا تھا کہ اگر روس اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کی تو معاہدے سے نکل جائیں گے اور گزشتہ روز اس کا باقاعدہ اعلان بھی کردیا گیا.اس حوالے سےنیٹو کا کہنا ہے کہ اگر روس،واشنگٹن کے اصرار پر معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے میزائل سسٹمز کو تباہ کرنے میں ناکام ہوگیا تو معاہدے کے خاتمے کا واحد ذمہ دار ہوگا. امریکی حکام نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ چینجو کہ 1987 میں کیے گئے اس معاہدے کا رکن نہیں ہے، وہ اس معاہدے میں طے شدہ رینج سے زیادہ میزائل بناکر ایشیا میں فوجی فوائد حاصل کررہا ہے.آئی این ایف سے دستبردار ہونے کے بعد انتظامیہ اس معاملے میں چین کا مقابلہ کرسکے گی لیکن یہ واضح نہیں کہ امریکا یہ کیسے کرے گا. روسی نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوو نے گزشتہ روز بیجنگ میں مذاکرات مکمل ہونے کے بعد کہا تھا کہ بدقسمتی سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی امریکا اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے. آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن میں ہتھیاروں کی تخفیف کے ڈائریکٹر کنگسٹن ریف کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس معاہدے کو بچانے کی سفارتی کوششوں میں ناکام ہوگئی ہے، ان کے پاس روس کو معاہدے کی غیر موجودگی میں مزید میڈیم رینج میزائل بنانے سے روکنے کی کوئی حکمت عملی موجود نہیں.کنگسٹن ریف نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی جون بولٹن طویل عرصے سے جاری اس معاہدے کے خاتمے کا موقع نہیں چھوڑیں گے. امریکا اور روس کے درمیان 1987 میں درمیانی رینج کے ہتھیاروں کی پابندی کا معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت 5 سو اور 5 ہزار 5 سو کلومیٹر رینج کے زمین سے مار کر نے والے کروز میزائل پر پابندی عائد تھی.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے