صدر رجب طیب اردوغان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد طاقت کے توازن میں پیدا ہونے والی خلا کو روکنے پر اتفاق کیا ہے۔

ترک صدارتی محل کی جانب سے یہ بات دونوں صدور کے درمیان اتوار کو ہونے والے ٹیلی فونک گفتگو کے بعد کہی گئی ہے۔

ترک صدر کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’دونوں رہنماؤں نے اپنے اپنے ملک کے فوجی، سفارتی اور دیگر حکام کے درمیان تعاون کو یقینی بنانے پر اتفاق کیا ہے تاکہ طاقت کا خلا پیدا ہونے سے روکا جا سکے، جس کے نتیجے میں شام میں تبدیلی اور فوجی انخلا کا غلط استعمال نہ کیا جا سکے۔‘

یہ بھی پڑھیے

شام سے انخلا کے بعد افغانستان میں امریکی فوج میں کمی کا فیصلہ

یہ روس، ایران اور شام کی اپنی لڑائی ہے: صدر ٹرمپ

امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس مستعفی ہو گئے

اس سے قبل بدھ کو امریکی صدر نے اپنے اتحادیوں اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کو اس وقت حیران کر دیا تھا جب انھوں نے شام سے دو ہزار امریکی افواج کے انخلا کا حکم دیا۔

ان کے اس حیران کن اقدام کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی وزیر دفاع جم میٹس اور شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ مخالف اتحاد کے خصوصی ایلچی بریٹ مک گرک مستعفی ہوگئے۔

لیکن ترکی نے امریکی صدر کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترک صدر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر اردوغان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا ہے کہ ’ترکی اس فیصلے کے مطابق اپنے نیٹو اتحادی ملک کو انخلا کے لیے ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔‘

اس سے قبل دونوں صدور نے اپنے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹس پر بھی اس ٹیلی فونک گفتگو کے بارے میں کہا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ’بامعنی ٹیلی فونک گفتگو‘ ہوئی ہے۔

ترک صدارتی بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ امریکہ اور ترکی کے درمیان تجارت خواہشات سے کم رہی ہے اور انھیں بڑھانے کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق کردوں پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار متیولیو سیروگلو کا کہنا ہے کہ ’امریکی انخلا سے ترکی کو راستہ مل جائے گا کہ وہ کردوں کے خلاف آپریشن شروع کرے اور اس طرح خونی جنگ کا آغاز ہوگا۔‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے